میری پہلی شادی دو طرفہ شدید پسند کی شادی تھی۔اس شادی کے ہونا ناممکن سا لگتا تھا۔ اس کی بہت سی وجوہات تھیں۔ خیر، کراچی آنے جانے میں پی آئی اے کی جو استعمال شدہ ٹکٹس تھیں وہ میں اپنے دراز میں چھپا کر رکھا کرتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ عشق توڑ چڑھنا ناممکن ہے کم از کم عشق کی نشانیاں ہی سنبھال کر رکھ لوں۔ میرے گھر میں نہ اماں کو کچھ معلوم تھا نہ ہی بہن کو بتایا تھا۔ خفیہ عشق فرما رہا تھا۔ ایک روز میں سویا ہوا تھا۔ مجھے امی نے سر پر آن کر جگایا۔ ان کے ہاتھ میں پی آئی اے کی ٹکٹس تھیں اور امی شدید غصے میں پوچھنے لگیں یہ سب کیا ہے ؟۔ پہلے پہل تو میں نے ڈر کے مارے بہانہ بنا دیا کہ امی یہ میری نہیں ہیں مگر اماں تو سرکاری سکول میں سینیئر سائنس ٹیچر تھیں وہ کونسا ان پڑھ تھیں کہ ٹکٹس کے اوپر لکھا نام نہ پڑھ سکتی ہوں۔جب کوئی چارہ نہ رہا تو میں نے سوچا کہ اب یہی موقعہ ہے، صاف بات کر دی جائے۔ اب جو ہو سو ہو۔ میں نے پھر سب صاف اُگل دیا۔



سب سے پہلا جھٹکا تو اماں تو لگا۔ وہ میرے بستر پر بیٹھ کر رونے لگ گئیں۔ بہن یہ سُن کر ہمارے پاس آ گئی۔ دوسرا صدمہ بہن کو پہنچا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ بہن نے اپنے تئیں ہی اپنی ایک بہت قریبی سہیلی کو میرے واسطے پسند فرما رکھا ہے اور اس قدر فرما رکھا ہے کہ اس کو بھی بتا چکیں کہ تم میرے گھر ہی آؤ گی۔ یعنی وہ اپنے تئیں امی سے مل کر میری فیملی پلاننگ کر چکی تھی۔ بہن کی سہیلی ایک بہت شریف خاندانی لڑکی تھی۔ بظاہر اس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو اچھی نہ لگے مگر میں کیا کرتا ؟۔ میرا دل تو کہیں اور لگا ہوا تھا۔ اس دن گھر میں امی اور بہن نے مل کر مجھے خوب سنائیں۔ پھر دونوں کو بلآخر صبر آ گیا۔ مگر بات یہیں رُکی نہیں۔ امی نے میرے ننھیال کو گھر بُلا لیا۔


سنہ ۲۰۰۵ میں میرے والد جگر کے سرطان ہاتھوں گزر چکے تھے۔ ان کو گزرے ابھی ایک سال ہی ہوا تھا۔ ددھیال میرا تھا ہی نہیں جو کچھ تھا ننھیال تھا۔ چار ماموں تھے جو میری امی سے سب چھوٹے تھے اور نانا ابو تھے۔ نانی اماں گزر چکیں تھیں۔ اماں کی ایس او ایس کال گئی تو اگلی ہی صبح چاروں ماموں اور نانا ابو سب گھر آ گئے۔ امی نے ان کو سب فون پر بتا دیا تھا۔ وہ سب یوں آئے جیسے ان کی بہن کو کسی نے تنگ کیا ہو اور اس کو پھینٹی لگانے جانا ہو۔ یعنی شدید غصے میں۔ آتے ہی انہوں نے مجھ کو بیچ میں بٹھا لیا۔


اب نقشہ یوں تھا کہ میری کرسی صحن کے عین بیچ میں ہے۔ چاروں طرف چار ماموں بیٹھے ہیں۔ سامنے امی اور نانا ابو، اور ان کے ساتھ میری بہن۔ بہن کو زیادہ ہی غصہ تھا کیونکہ اس کو مجھ سے محبت بھی بہت زیادہ تھی۔ یہ خبر اس کے لئے سچ میں صدمہ تھی۔وہ تو اپنی سہیلی کا سوچ کر کب سے بیٹھی ہوئی تھی۔ ماموں نے آتے ہی مجھے صلواتیں سنانا شروع کر دیں جن کا لب لباب یہ تھا کہ مجھے شرم کرنا چاہییے، والد کو گزرے ایک سال ہوا ہے اور میں نے ساری حدیں پھلانگ کر گھر والوں کو پریشان کر ڈالا ہے۔ وہ سب مجھے ڈانٹ رہے تھے کہ اچانک نانا ابو کی آواز گونجی، تم سب چپ کرو ذرا ، اس سے پوچھ تو لیں کہ برخوردار کہاں گُل کھلا رہے ہیں۔ وہ سب چپ ہو گئے۔ نانا ابو پنجابی میں بولے 


ہاں وئی سوہنیا، لعنت تیرے تے۔ دس مینوں ہُن کی کرنا اے توں ؟ کون اے کڑی ؟ کتھے رہندی اے ؟ کیہڑا خاندان اے ؟۔۔ سب صاف صاف بول۔شرم حیا تینوں کوئی نئیں رہی۔ بغیرت ہو جاوے مُنڈا تے کی کیتا جا سکدا۔۔۔۔


میں سب سے جھاڑ پی کر غصے میں بھرا چپ بیٹھا تھا۔ میں نے فیصلہ کیا تھا کہ ان سے بات نہیں ہو سکتی یہ نہیں سنیں گے نہ ہی مانیں گے۔ یہ بس مجھ کو لتاڑنے آئے ہیں۔ میں چپ رہا تو نانا ابو کی زندگی میں پہلی بار گرجدار آواز سُنی۔ ساری زندگی ان کو کبھی اونچا بولتے نہیں سُنا تھا وہ بہت نارمل لہجے میں بات کیا کرتے تھے۔ اچانک یوں لگا جیسے نانا ابو نہیں مصطفی قریشی بول رہا ہے ، بول ہُن، دس سانوں کی معاملہ اے ؟میں نے بولنا شروع کر دیا۔


نانا ابو وہ کراچی رہتی ہے۔


کی آکھیا ای ؟ کراچی ؟ اینی دور ۔۔۔ اے حرامدہ نہ ہووے تے۔ واہ سوہنیا واہ۔ کراچی، جتھے نہ کوئی آوے نہ جاوے۔۔۔تینوں کراچی بھیجنا ای نئیں سی چاہیدا(میں نے ڈگری کے لئے کراچی یونیورسٹی داخلہ لیا تھا اور دو سال بعد والد کے کینسر کے سبب ڈگری کو ڈسٹنس لرننگ پر بمشکل شفٹ کروا کے واپس سیالکوٹ آ گیا تھا)۔ 


پھر بولے : اگے دس، کیہڑا خاندان اے ؟


نانا ابو ملک اعوان فیملی ہے۔ اس کے ابو پولیس میں ڈی ایس پی ہیں۔


یہ سُنتے ہی چاروں ماموں یکذبان ہو کر بولے ، حرامدا، کرتوت ویکھو ایدے، پھر نانا ابو بولے ، واہ سوہنیا واہ، تینوں سید زادی کوئی نئیں سی لبھی بھری یونیورسٹی وچ ؟۔ بغیرت 


ان سب کے لئے یہ ہضم کرنا مشکل تھا۔ سادات یا سید گھرانے غیر سادات میں رشتہ جوڑنے کو آسانی سے تیار نہیں ہوتے۔ یہ سادات کا المیہ ہے ، خیر، اس بات کو لے کر سب نے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ بات اپنے دل و دماغ سے نکال دو۔ ایک تو کراچی کہاں، اوپر سے غیر سادات۔ بڑے ماموں نے آگے بڑھ کر مجھے ایک لگا دی۔ وہ غصے میں تھے۔ نانا ابو نے ان کو روکتے ہوئے کہا کہ اسے چھوڑ دو،جوان لڑکا ہے، اس پر ہاتھ نہ اُٹھاؤ۔ انہوں نے مجھے مزید تشدد سے بچا لیا۔ کچھ دیر سب کف افسوس ملتے مجھ پر لعن طعن کرتے رہے۔ میں غصے میں بھرا بیٹھا رہا۔


کچھ وقفے کے بعد نانا ابو کو نجانے کیا خیال آیا۔ پھر بولے ، کُڑی کی کردی اے ؟۔


نانا ابو اس نے ڈبل ماسٹرز کیا ہوا ہے، کرمنالوجی میں بھی اور انٹرنیشنل ریلیشن شپس میں بھی۔


یہ سُن کر نانا ابو کا جواب آیا، واہ سوہنیا واہ، یعنی کڑی دی عمر تیرے توں زیادہ اے۔ ڈبل ماسٹرز ایویں تے نئیں ہو جاندا ۔۔


جی نانا ابو، وہ مجھ سے تین سال بڑی ہے۔ 


بس یہ سننا تھا کہ سب آپے سے باہر ہو گئے۔ ان سب کے لئے یہ ڈراؤنے خواب جیسا تھا۔ ان کو یہ برداشت کرنا مشکل تھا کہ ایک تو کراچی، دوسرا غیر سادات اور پھر لڑکی بھی تین سال بڑی۔ امی نے کہا کہ تم پاگل ہو گئے ہو کیا ؟ اس لڑکی نے کوئی جادو کر دیا ہے کیا ؟ ہمیں کیا مجبوری ہے کہ اتنا دور رشتہ کریں وہ بھی غیر برادری میں اور لڑکی بھی تم سے عمر میں بڑی ہو ؟۔ جیسے ہی میں نے ان کو بیبی خدیجہ کی بات سنانا چاہی توں ہی ایک اور ریپٹا ماموں کا میری کمر پر آن پڑا اور ساتھ ہی ماموں کی آواز آئی ، کنجر، توں سانوں دین سکھائیں گا ۔


الغرض اس شام تک سارے ماموں کُلی انکار کر کے واپس چلے گئے اور جاتے جاتے میری امی کو کہہ گئے کہ بہن یہ نہیں ہو سکتا۔ اگر اس کو اپنی مرضی کرنی ہے تو جائے جا کر کر لے۔ ہماری طرف سے انکار ہے۔ اماں پریشانی میں روتی رہی۔ رات کو بس نانا ابو رُکے۔ امی، نانا اور بہن نے جب یہ اچھے سے بھانپ لیا کہ معاملہ سیریس ہے تو ان کا دل موم ہونے لگا۔ آخر اکلوتا بیٹا اور بھائی تھا۔ اگلے روز نانا ابو کا مزاج نارمل ہو چکا تھا۔ امی اور نانا نے مجھے کہا کہ کیا اس کے گھر والوں کو بھی معلوم ہے یا نہیں ؟۔ ہم کراچی کیسے جائیں گے ؟ کون لے کر جائے گا ؟ وغیرہ وغیرہ جیسے سوالات ہونے لگے۔ یعنی نیم رضامندی ظاہر ہونے لگی۔ 


اب مشکل یہ آن پڑی کہ اس کے گھر والوں کو بھی معلوم نہیں تھا۔ میں گھر سے باہر نکلا اور پی سی او سے اس کے موبائل پر فون کر دیا۔ اس کے پاس موٹرولا کا موبائل ہوا کرتا تھا۔ اس کو ساری داستان سنائی اور بولا کہ خدا کا واسطہ اب تم بھی فوری طور پر آج ہی گھر بتا دو، دیکھو اب کوئی گنجائش نہیں بچی، میں ماموں لوگوں سے پٹ چکا ہوں اب تو چٹاکے بھی کھا چکا ہوں۔ تم گھر بات کرو اور مجھے بتاؤ تاکہ میں امی اور نانا ابو کو کسی طرح تمہارے گھر بھجواؤں۔ وہ یہ سب سُن کر پریشان ہوئی اور پھر جب اسے معلوم ہوا کہ مجھے ماموں لوگوں نے تشدد کا نشانہ بھی بنا دیا ہے تو وہ جذباتی ہو گئی۔ 


بس صاحبو، اسی شام اس نے ڈی ایس پی صاحب کے گھر آتے ہی ان کے سامنے جا کر ساری بات کر دی۔ ڈی ایس پی صاحب نے معاملہ جان کر غصے میں پاگل ہوتے ایک چپاٹ لگا دی تو اس نے سرکاری ریوالور نکال کر اپنی کنپٹی پر رکھ کر ڈرامہ کر دیا کہ اگر وہ نہیں مانیں گے تو میں خود کو گولی مار لوں گی۔ ان کے گھر اس دن بہت ہنگامہ ہوا۔ بلآخر تھک ہار کر اس کے والدین بھی سمجھ گئے کہ پانی سر سے گزر چکا ہے۔ دو دن بعد مجھے گرین سگنل مل گیا۔ اس دوران بہن ، امی اور نانا ابو اس شرط پر رضامند ہوئے کہ اگر وہ خاندانی لوگ نہ نکلے، یا ان کے گھر جا کر کچھ اچھا نہ لگا، یا ان کی باتیں اچھی نہ لگیں تو وہیں سے وہ اُٹھ کر واپس چل دیں گے اور اس کے بعد تم اس کو بھول جاؤ گے۔ چار و ناچار مجھے یہ شرائط ماننا پڑیں۔ امی کے خالہ زاد بھائی جن کا نام حسن تھا وہ کراچی یونیورسٹی ہی پڑھایا کرتے تھے اور بال بچوں سمیت انچولی کے علاقے میں رہائش پذیر تھے۔ حسن ماموں نے بھی اردو سپیکنگ فیملی میں پسند کی شادی کر رکھی تھی اور وہیں آباد ہو گئے تھے۔ امی نے اپنے کزن سے رابطہ کیا، ان کو ساری بات بتائی۔ انہوں نے بلا لیا، طے یہ پایا کہ حسن ماموں اپنی گاڑی میں امی اور نانا ابو کو لے کر لڑکی والوں کے ہاں بات کرنے جائیں گے۔


میں نے نائٹ کوچ کی تین ٹکٹس لیں۔ اس زمانے میں پاکستان ریلوے کی کراچی ایکسپریس چلتی تھی جس کو نائٹ کوچ بھی کہا جاتا تھا۔ ہم تینوں سفر کرتے کراچی جا پہنچے اور حسن ماموں کے ہاں جا ٹھہرے۔ سارا راہ میں وہی دھمکی آمیز بیانات سنتا رہا کہ اگر یوں ہوا تو ووں ہو جائے گا۔ حسن ماموں بھی ایک کردار تھے۔ شام کو میرے پاس آئے اور آ کر بولے 


ہاں کاکا، کسی طرح گزاراہ ممکن نہیں ؟ مطلب یہ تمہارا پکا فائنل فیصلہ ہے ؟ معافی نہیں مل سکتی ہم سب کو ؟


میں نے سنجیدہ جواب دیا کہ ہاں پکا فیصلہ ہے۔ حسن ماموں نے کہا کہ تمہاری امی اور نانا تو خوش نہیں ہیں۔ تم انہیں مجبور کر کے لے آئے ہو۔ تمہاری خوشی کی خاطر وہ آ گئے ہیں مگر سوچ لو کہ کیا یہی کرنا چاہتے ہو ؟۔ اس رات انہوں نے مجھ سے ساری جانکاری لی اور پھر بولے، اچھا میں کوشش کروں گا کہ وہاں معاملات کو ہینڈل کر لوں اور کسی طرح یہ بات بن جائے۔ 


اگلی صبح حسن ماموں کے ساتھ امی اور نانا ابو ان کے ہاں چلے گئے۔ میں پیچھے گھر میں مصلہ ڈال کر بیٹھ گیا۔ دل گھبراتا رہا ۔ تین گھنٹے بیت گئے وہ واپس نہ آئے۔ پھر جب وہ سب آئے تو میں نے بھاگ کر ان سے پوچھا۔ نانا ابو اور امی کے تاثرات نارمل تھے۔ حسن ماموں نے تفصیل بتاتے کہا کہ سب ٹھیک رہا ہے ٹینشن والی کوئی بات نہیں۔ نانا ابو نے کہا کہ چلو ٹھیک ہے تمہارا شوق پورا ہو رہا ہم خوش ہی ہیں۔ امی نے البتہ ایک تاریخ ساز بات کی جو مجھے جب یاد آتی ہے میری ہنسی نکل جاتی ہے۔ مجھے کہنے لگیں


اگر تم نے اسی گھر میں کرنا ہے تو اس کی چھوٹی بہن مجھے زیادہ اچھی لگی ہے اور وہ تمہاری ہم عمر بھی ہے اور وہ سگھڑ بھی ہے۔ کھانا پکانا جانتی ہے۔ 


یہ سن کر میں نے امی کو سمجھایا کہ اماں کیا بات کر رہی ہو مطلب عجیب کہہ رہی ہو۔ اماں بس اپنے بیٹے کے لئے ان کے خیال میں ایک پرفیکٹ بہو چاہتی تھی اور جب بیٹے نے ان کو موقع نہیں دیا تو وہ کم سے کم ایسی بہو چاہتی تھیں جو موازنے میں ان کو بہتر لگے۔ اس دن میں بہت خوش رہا۔ کچھ دیر بعد حسن ماموں کو میرے ہونے والے سسر کی کال آ گئی جس میں انہوں نے کہا کہ اگر برخوردار بھی کراچی آیا ہوا ہے تو اسے آج رات ڈنر پر گھر لے آؤ، میں اسے سامنے دیکھ کر کچھ بات کر لوں۔جب وہ کراچی موجود ہے تو میں سیالکوٹ تو بعد میں جاؤں گا پہلے یہیں اسے دیکھ لوں۔


اسی رات امی، میں اور حسن بھائی ان کے گھر دعوت پر پہنچے۔ نانا ابو نہیں گئے وہ تھک چکے تھے۔ڈی ایس پی صاحب سامنے بیٹھے اور مجھے دیکھ کر بولے 


کتنی تنخواہ ہے تمہاری ویسے ؟


جی، پندرہ ہزار (تنخواہ تو دراصل ساڑھے سات ہزار تھی میں نے گھبرا کے دوگنی بتا دی کہ کہیں یہ تنخواہ کے سبب نہ مسترد کر دیں )


اچھا، تو کیسے گزارہ کرو گے تم اس تنخواہ میں ؟ 


آپ یہ بات اپنی بیٹی سے پوچھ لیں وہ گزارہ کرنے کو تیار ہے اسے سب معلوم ہے۔


ڈی ایس پی صاحب نے عینک درست کی اور بولے 


وہ نازوں پلی بچی ہے میری، اسے کیا معلوم زندگی کتنی سخت ہوتی ہے۔ اسے ہر شے وقت پر ملتی رہی ہے۔ میں اسے چلو گاڑی تو دے دوں گا مگر اتنا تو پٹرول لگ جایا کرے گا جتنی تمہاری تنخواہ ہے۔


سچی بات یہ ہے کہ یہ بات سن کر مجھے بہت غصہ آیا تھا۔ مجھے اس وقت لگا جیسے میری بے عزتی کر رہے ہوں۔ میں نے کہہ دیا کہ سر آپ گاڑی نہ دیں نہ مجھے چاہییے اور نہ میں لوں گا۔ میرے پاس بائک ہے وہ کافی ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ وہ بائک پر گزارہ نہیں کر سکتی تو آپ بالکل نہ کریں۔ جو ہے یہی ہے اور میں آپ کے سامنے ہوں ایسا ہی ہوں۔ جتنا آپ کو مشکل ہو رہی ہے اس سے کئی گنا زیادہ مشکل سے میں نے اپنے گھر والوں کو منا کر یہاں تک پہنچایا ہے۔یہاں میں اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ سب سے ٹکر لے کر لے رہا ہوں تو میں سیریس ہوں۔ باقی آپ میرے بارے جو معلوم کرنا چاہیں کر لیں۔


غصہ ان کو بھی آیا اور بولے ، ایک تو تم معمولی تنخواہ دار ہو اوپر سے تم میں اکڑ بھی ہے۔ تمہاری ماں اور نانا مجھے بہت بھلے لوگ معلوم ہوئے ہیں، پولیس میں کام کرتے لوگوں کی پرکھ رکھتا ہوں، اوپر سے میری بیٹی بھی یہی چاہتی ہے تو ٹھیک ہے، تم بھی اپنی مرضی سے خوش رہو وہ بھی رہ لے۔


اس کے بعد ان کی بیگم صاحبہ نے ماحول کو لائٹ کرنے کی کوشش کی اور پھر عام باتیں ہونے لگیں۔ کراچی سے واپسی کے دس دن بعد ڈی ایس پی صاحب سیالکوٹ ہمارے گھر آئے اور بلآخر یہ مرحلہ اختتام کو پہنچا۔ ستائیس جون سنہ ۲۰۰۶ میں میرا نکاح شاہراہ فیصل پر واقع مہران ہوٹل میں ہوا۔میرے خاندان نے شرکت نہیں کی۔ امی، بہن اور حسن ماموں سمیت امی کی کچھ کولیگز اور میرے دوست کولیگز پر مشتمل انتہائی مختصر سی بارات تھی۔ اس روز کراچی میں شدید بارش ہوئی۔ شاہراہ فیصل دریا بن گیا۔ رخصتی کی تاریخ پچیس دسمبر ۲۰۰۶ مقرر ہوئی۔جس روز میرا نکاح ہو رہا تھا میری بہن اپنی سہیلی کے ساتھ مل کر فون پر رو رہی تھی۔ جب مجھے معلوم ہوا مجھے بہت دکھ لگا۔ پھر بہن نے کال کاٹ دی اور بولی “ بھائی اس میں ساری غلطی میری تھی مجھے اس کو ایسے خواب نہیں دکھانے چاہئیے تھے۔ تم خوش رہو وہ سمجھ جائے گی۔”


رخصتی پر بھی گن کر پانچ لوگ گئے اور گھر میں ہی سادہ سی تقریب ہوئی۔یہ ساری داستان بہت اختصار کے ساتھ لکھی ہے۔ اس کی تفصیلات بیک وقت مزاحیہ بھی ہیں اور سنجیدہ بھی ہیں۔کبھی مہلت نصیب ہوئی تو اپنی بائیوگرافی میں درج کر دوں گا۔ کہنا بس یہ تھا کہ ناممکن کو ممکن بنایا تھا۔ اور پھر ممکن ناممکن بنتا چلا گیا۔ 


آشیانے کی بات کرتے ہو

دل جلانے کی بات کرتے ہو


حادثہ تھا گزر گیا ہو گا

کس کے جانے کی بات کرتے ہو6

Comments

Popular posts from this blog